پنجاب بھر کے سرکاری اسکولوں کو پرائیویٹ کرنے کے عمل میں تیزی اسکولوں سے تفصیلی معلومات طلب کر لی گی

محکمہ اسکول ایجوکیشن پنجاب نے راولپنڈی سمیت صوبے بھر کے سرکاری اسکولوں کی نجکاری اور انہیں پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ سسٹم کے تحت چلانے کا فیصلہ کر لیا۔

اس منصوبے کے ابتدائی مرحلے میں مستقل اساتذہ کی کمی والے سرکاری اسکولوں کو فوری طور پر پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے زیر انتظامات کر دیا جائے گا جبکہ محکمہ نے اس عمل کو تیز کرنے کے لیے ایک ہفتے کے اندر ایسے اسکولوں کی فہرستیں طلب کی ہیں۔

اسکول انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی سہولیات کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کریں جس میں کلاس رومز، اسٹاف روم، ہال، بند کمرے، عمارت کا کل رقبہ، اور اندراج شدہ طلبا و طالبات کی تعداد شامل ہیں۔

دوسری جانب اساتذہ کی تنظیموں نے نجکاری کے منصوبے کی سخت مخالفت کی ہے اور نئے اساتذہ کی فوری بھرتی کا مطالبہ کیا ہے۔

پنجاب ٹیچرز یونین کے مرکزی سیکرٹری جنرل رانا لیاقت، ایجوکیٹرز ایسوسی ایشن کے صدر بشارت اقبال راجہ اور پنجاب ایس ای ایس ٹیچرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری محمد شفیق نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ اسکولوں کی نجکاری سے تعلیمی اخراجات میں اضافہ اور ہر سطح پر فیسوں میں زبردست اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ مفت نصابی کتابوں کے نظام کو ختم کرنے سے سرکاری اسکولوں میں طلبا و طالبات کے اندراج میں کمی آئے گی۔ اساتذہ تنظیموں اور نئے وزیر تعلیم سکندر حیات کے درمیان مذاکرات کے باوجود بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

رانا لیاقت نے کہا کہ صوبے میں حکومت کا تعلیمی بجٹ 450 ارب روپے ہے، جس میں 380 ارب روپے کا نمایاں حصہ اساتذہ کی تنخواہوں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اس سے دیگر تعلیمی اخراجات کے لیے صرف 70 ارب روپے رہ جاتے ہیں، جو ناکافی سمجھے جاتے ہیں۔