عمران خان جیل میں رہ کر انتخابات پر کتنا اثر انداز ہو سکتے ہے؟ اور ان کی اے آئی تقاریر اور بیانات پارٹی کے لیے کتنے موثر ہو سکتے ہیں؟

عمران خان
فوٹو بشکریہ گوگل امیجز

عمران خان جیل میں رہ کر انتخابات پر کتنا اثر انداز ہو سکتے ہے؟ اور ان کی اے آئی تقاریر اور بیانات پارٹی کے لیے کتنے موثر ہو سکتے ہیں؟

عمران خان
فوٹو بشکریہ گوگل امیجز

 

عمران خان جیل کے اندر رہ کر پارٹی رہنماؤں کی کس حد تک رہنمائی کر سکتے ہیں؟ اپنی اے آئی تقاریر اور بیانات سے کیا بیانیہ بنانے اور پارٹی کو آگے لانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟ اور ان کے بیانات اور اے آئی تقاریر کتنی موثر ہو سکتی ہیں؟

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بانی پی ٹی آئی کی تقاریر اور مختلف جریدوں میں مضامین کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہے گا جبکہ سیاسی تجزیہ کار اسے عمل کو ان کی ’ورچوئل موجودگی‘ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان اگست 2023 سے مختلف مقدمات میں قید میں ہیں۔ بانی پی ٹی آئی ایسے وقت میں اڈیالہ جیل میں تین سال کی سزا کاٹ رہے ہیں جب ملک میں آئندہ ماہ عام انتخابات طے ہیں۔

اس وقت مختلف سیاسی جماعتوں کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ سمیت مختلف اہم معاملات پر دیگر جماعتوں سے رابطے اور ملاقاتیں جاری ہیں۔

جہاں کئی سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کی حتمی فہرستیں اور ٹکٹیں جاری کر چکی ہیں وہیں پی ٹی آئی اب بھی عدالتوں میں نامزدگی فارم، لیول پلینگ فیلڈ اور بلے کا نشان واپس لینے کے لیے قانونی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔

پی ٹی آئی کو پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت سمجھا جاتا ہے۔ تاہم جہاں اس کے کئی رہنما جیل میں ہیں یا پارٹی چھوڑ چکے ہیں وہیں کچھ رہنما پارٹی کو انتخابات میں کامیابی دلوانے کے لیے کوشاں ہیں۔

حالیہ دنوں بانی پی ٹی آئی عمران خان کا بین الاقوامی جریدے میں مضمون چھپا ہے جہاں انہوں نے حکومت پر ’پی ٹی آئی کو انتخابی مہم چلانے کے بنیادی حق سے محروم رکھنے‘ کا الزام عائد کیا ہے۔

ساتھ یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل میں رہتے ہوئے پارٹی کی انتخابات میں کامیابی کے لیے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟

پی ٹی آئی کے وکیل رہنما شعیب شاہین نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا اس سب کے باوجود پارٹی کے ووٹر ان کے ساتھ کھڑے ہیں، جماعت اور عمران خان کے پاس وکٹم کارڈ بھی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ اس سب کا نقصان نہیں فائدہ ہوگا۔

شعیب شاہین نے کہا مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کی جانے والی تقاریر، مضامین اور صحافیوں سے ان کا گفتگو کرنا الیکشن میں پی ٹی آئی کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کی اے آئی کی تقریر بہت کامیاب رہی جبکہ ان کے مضمون کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہونا، ان تمام چیزوں سے ان کے بیانیے کو تقویت پہنچ رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’عمران خان کی اے آئی تقاریر ہوں یا ان کا جریدوں میں مضمون چھپنا ہو، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ دو روز بعد 13 جنوری کو ہونے والے ورچوئل جلسے میں ایک مرتبہ پھر عمران خان کی اے آئی تقریر ہوگی۔‘

دوسری جانب نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی نے گذشتہ شب ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت کو مضمون پر اعتراض نہیں اس جریدے پر ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما خود اس مضمون کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب جیل میں کچھ لکھنے کی سہولیات موجود نہیں ہیں تو ایسے میں جریدے میں مضمون کیسے چھپ سکتا ہے؟ ان کا مضمون اتنا ہی حقیقی ہے جتنے ان کے ٹویٹ حقیقی ہیں۔

جیل میں رہنا ہی ان کی پارٹی کی سب سے بڑی مدد

عمران خان جیل میں رہتے ہوئے بھی سرگرم ہیں۔ان کے آرٹیکل کی اشاعت یا مصنوعی ذہانت کے ذریعے تقریر نشر ہونا ان کی ورچوئل موجودگی ظاہر کرتی ہے جو کہ قابل تحسین ہے۔

عمران خان کے جیل میں رہنے سے صرف ایک فرق پڑا ہے کہ وہ منظم انداز میں جلسہ نہیں کر سکے جس طرح وہ پہلے کیا کرتے تھے۔

تاہم عمران خان اگر جیل سے باہر ہوتے تو زیادہ رنگ پڑتا۔ ان کی جماعت کو تنظیمی اعتبار سے بہت نقصان ہو رہا ہے اور  جماعت کی حلقہ کی سیاست بہت کمزور ہو گئی ہے۔مضمون لکھ کر عمران خان متحرک ضرور ہیں لیکن اس کا دور رس فائدہ نہیں ہے۔

آسانیوں کے بجائے مزید مشکلات پیدا ہوں گی

عمران خان کی پارٹی اور سپورٹرز کو ایسا لگتا ہے کہ وہ اے آئی کے ذریعے تقاریر کریں یا جیل سے مضامین لکھیں، اس سے ان کی انتخابی مہم کو تقویت ملتی ہے اور ووٹر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اسے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کے تناظر میں دیکھیں تو یہ چیزیں اسٹیبلشمنٹ کے نقطہ نظر سے ان کے لیے آسانیوں کے بجائے مزید مشکلات پیدا کریں گی۔

پاکستان تحریک انصاف کے لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ ایک دباؤ کا حربہ ہے تاکہ اسٹیبلشمنٹ ان سے بات کرنے پر مجبور ہو جائے لیکن ایسا نہیں لگتا ہے۔

البتہ یہ ضرور ہے کہ پی ٹی آئی کو سوشل میڈیا اور میڈیا کا استمال کرنا اور خبروں میں رہنا آتا ہے، اس حد تک یہ ٹھیک ہے لیکن طویل مدت میں یہ سیاسی فائدہ نہیں دیں گے۔