استعفیٰ دینے والے جج کاروائی سے نہیں بچ سکیں گے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
فوٹو بشکریہ گوگل امیجز

استعفیٰ دینے والے جج کاروائی سے نہیں بچ سکیں گے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
فوٹو بشکریہ گوگل امیجز

 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے اس بات پر
زور دیا ہے کہ ایک جج کے لیے یہ ناقابل قبول ہے کہ وہ پورے ادارے کی ساکھ کو داغدار کرے اور پھر بغیر کسی نتیجے کے مستعفی ہو جائے۔  چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں سابق جج مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف کارروائی کا معاملہ زیر بحث آیا۔

ملاقات کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے سابق جج مظاہر سید مظاہر علی اکبر نقوی کا استعفیٰ پڑھ کر سنایا۔  اٹارنی جنرل اعوان نے کہا کہ اگر کوئی جج مستعفی ہو جائے تو سپریم جوڈیشل کونسل کے قواعد کے مطابق ان کے خلاف مزید کارروائی نہیں ہو سکتی۔

اس کے جواب میں سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن معزز جج جسٹس امیر بھٹی نے آئین کے آرٹیکل 209(3) کا حوالہ دیا۔  اٹارنی جنرل منصور عثمان نے وضاحت کی کہ آئین کے مطابق اگر کوئی رکن موجود نہیں تو سب سے سینئر جج کونسل کا رکن بن جائے گا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کارروائی میں حصہ نہیں لینا چاہتے۔  انہوں نے ذکر کیا کہ اگر باقی چار ممبران آرٹیکل 209 کے مطابق جاری رکھنے کے قابل ہو گئے تو کونسل کارروائی کو آگے بڑھائے گی۔ اگر جسٹس منصور علی شاہ دستیاب ہو جاتے ہیں تو انہیں کارروائی میں شامل کیا جائے گا۔

مختصر وقفے کے بعد سپریم جوڈیشل کا اجلاس جسٹس منصور علی شاہ کی شرکت سے دوبارہ شروع ہوا۔  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا معاملہ حل ہوگیا اور اٹارنی جنرل سے مدد کی درخواست کی۔  انہوں نے روشنی ڈالی کہ استعفیٰ کارروائی کے آغاز میں پیش نہیں کیا گیا بلکہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے شوکاز نوٹس جاری کرنے کے بعد پیش کیا گیا۔

یہ تجویز کیا گیا ہے کہ جج نے درخواستوں کی صداقت پر شک کرتے ہوئے دباؤ کے باعث استعفیٰ دیا ہے۔  یہ صورتحال انتہائی غیر معمولی ہے اور ہماری ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔  تاہم، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ جج کا استعفیٰ ایک ذاتی فیصلہ ہے۔  جج کو عہدے سے ہٹانے کا عمل پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس کے دوران اس امکان کو تسلیم کیا کہ جج کا استعفیٰ دباؤ کا نتیجہ تھا، جس سے درخواستوں کے درست ہونے پر خدشات پیدا ہوئے۔  یہ غیر معمولی صورتحال ہماری ساکھ کے لیے خطرہ ہے۔  یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ جج کا استعفیٰ ذاتی انتخاب ہے۔  جج کو عہدے سے ہٹانے کا عمل آخری مرحلے میں پہنچ گیا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دباؤ میں جج کے ممکنہ استعفیٰ پر تبصرہ کیا جس سے درخواستوں کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔  یہ منفرد صورت حال ہماری ساکھ کے لیے ایک چیلنج پیش کرتی ہے۔  تاہم، یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ جج کا استعفیٰ دینے کا فیصلہ ذاتی معاملہ ہے۔  جج کو عہدے سے ہٹانے کا عمل حتمی طور پر ختم ہو گیا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے بیان میں اس امکان کو تسلیم کیا کہ جج کا استعفیٰ بیرونی دباؤ کا نتیجہ ہے، جس سے درخواستوں کے درست ہونے پر شکوک پیدا ہوتے ہیں۔  یہ غیر معمولی صورتحال ہماری ساکھ کے لیے خطرہ ہے۔  بہر حال، یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ جج کا استعفیٰ ذاتی انتخاب ہے۔  جج کو عہدے سے ہٹانے کا عمل حتمی طور پر ختم ہو گیا ہے۔

جون 2023 میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ایک فیصلہ سنایا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر کوئی جج ریٹائر ہو جاتا ہے تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔  جس کے نتیجے میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے خلاف شکایت درج کر کے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دی گئی۔  تاہم ان کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے 2020 میں آئینی پٹیشن دائر کی گئی اور بالآخر 2023 میں فیصلہ آیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے کیس کی سماعت شروع کر دی ہے۔  اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ سپریم جوڈیشل کونسل کے لیے بے مثال کیس ہے۔  تاہم، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کونسل رائے نہیں دے سکتی۔  اٹارنی جنرل نے ایک فرضی منظر نامہ اٹھایا جہاں ایک معزز جج کے دوست نے کارروائی کے آخری دن انہیں اطلاع دی کہ انہیں برطرف کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ مستعفی ہو گئے۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اس معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کورٹ کی کارروائی کے دوران جج کا استعفیٰ ایک منفرد کیس ہے۔  جون 2023 میں دیا گیا فیصلہ 2 رکنی بینچ کا تھا اور پریکٹس اینڈ پروسیجر بل متعارف ہونے کے بعد اس بینچ کو اب ایسے معاملات پر فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رہا۔

سپریم کورٹ نے خواجہ حارث اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس جمعہ 12 جنوری 2024 کی صبح 11:30 بجے تک ملتوی کر دیا۔