"بے رحم نیند "

"بے رحم نیند "

"بے رحم نیند "

"بے رحم نیند "

 

(از قلم منیب احمد فہم ؔ)

 

تباہی، خون ریزی،آہ وبکا، دھماکہ کانوں کو چیڑ کر گزرنے والی آواز سے ڈر کر سڑک کنارے فٹ پاتھ پر سویا ایک شخص نیند سے جاگ جاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اُس کے سامنے ہی سڑک کے دوسری طرف والی پارک میں بڑے بڑے کنٹینرز لگائے جا چکے ہیں اور بہت بڑا ہجوم کسی وڈیری شخصیت کو خوش آمدید کہنے کے لئے جمع ہوا کیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
شور کی وجہ سے وہ شخص اپنا سر پکڑ لیتا ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے؟ غالباََ وہ دو دن کے بعد نیند سے جاگا ہے۔ گزشتہ دو دنوں سے نشے کی حالت میں فٹ پاتھ پر ہی سویا ہوا ہے۔
کیا شور ہے؟ کیا ماجرا ہے یہ؟ کس بات کا ہنگا مہ مچا رکھا ہے؟
کسی بے قصور کو سزا کے طور پر قید کر دیے جانے کے بعد اُمنڈنے والے سوال اُس کے ذہن میں آکے رقص کرتے ہیں اور پھر وہ اپنی نیند میں دیکھی جانے والی تباہی،خون ریزی،دھماکوں اور چیخ و پکار کی جھلکیوں کی طرف لوٹ جاتا ہے۔
جل گیا، سب جل گیا۔۔۔۔مر گئے بوڑھے جوان،لٹ گئیں عورتیں،یتیم ہو گئے بچے۔۔۔اغیار قابض ہوگئے،ہوگئے اغیار قابض۔
وہ اپنی جگہ بیٹھا بیٹھا چلاّتا ہے اور خاموش ہوجاتا ہے۔
پاس ہی بیٹھا ایک اور شخص اس کی عجیب طرز کی آوازوں سے تنگ آکر چلاّتا ہے۔
دودن تک سکون رہا کمبخت اُٹھتے ہی پھر تماشا شروع۔۔۔ارے! کوئی دو اسے بھاری خوراک تاکہ یہ سو سکے اور ہم بھی چند لمحوں کا سکون حاصل کرسکیں۔
سکون،سکون،سکون کب تک سکون سے رہوگے؟ کب تک حرام نیند سوتے رہوگے؟ کیا تمہیں سنائی نہیں دیتی اُن کی چیخیں؟ تمہاری آنکھوں میں اُن کا بہتا  خون نہیں اُبھر آتا۔۔۔۔وہ مر رہے ہیں، وہ کٹ رہے ہیں،جلائے جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔تمارے کان نہیں پھٹتے اُن بچوں کی آہ بکا سے۔۔۔۔سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ اُس کی آنکھیں خوف اگلنے لگتی ہیں۔
ارے! یہ پاگل جانے کن کی بات کر رہا ہے، کون کٹ رہا ہے،آخر کون مر رہا ہے؟ ارے میں پوچھتا ہوں آکر اس جہان میں کون نہیں کٹ رہا۔کون ہے جو نہیں مر رہا؟ہم سب کے سب زندہ ہوتے ہوئے بھی مردوں سے بدتر بن کے رہ گئے ہیں۔ہماری حقیقت اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا شخص لیٹا لیٹا ہی اس کی تمام تر باتوں کا جوا ب دیتا ہے۔
ان حالات میں کوئی جئے یا مرے،کٹ جائے یا پھر جلا دیا جائے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
دوسرا شخص پہلے کے سرخ ہوتے چہرے کو گھورتے ہوئے پوچھتا ہے۔
نہیں سمجھوں گے۔۔۔ تم کیسے سمجھوں گے؟؟؟ تم پہ گزری نہیں۔ تم نے جھیلا نہیں۔۔۔۔تم کیسے سمجھوں گے؟
پارک میں موجود ہجوم کا شور بھرتا ہے اور ےُوں بڑی بڑی گاڑیاں پارک کے پچھلے حصے کی طرف نظر آتی ہیں۔
پہلا آدمی جاری رہتاہے۔۔۔
کوئی قاسم نہیں اترے گا۔کوئی ماں اب دوبارہ غزنوی نہیں جنے گی۔۔۔۔ان جلسے جلوسوں سے باہر نکل کر ہمیں ہی جانا ہوگا۔ہمیں ہی مرنا ہے اُن کے لئے جو بھائی ہیں،جو بہنیں ہیں اور مائیں ہیں۔۔۔
دوسرا شخص پھر بات کاٹتا ہے!
کس کے بھائی؟ کون سی بہنیں۔۔۔جانے کن کی بات کر رہا ہے۔اس نشے کی لت نے تجھے اندر باہر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔کچھ نہیں سمجھتا کیا باتیں کر رہا ہے۔سوجا خاموشی سے یوں دماغ نہ کھا۔۔۔۔۔۔۔
پارک میں کھڑے کیے گئے کنٹینرز پر تھوری ہل چل کے بعد ہجوم کا شور مزید پروان چڑھتا ہے جیسے کسی مسیحا کا انتظار ختم ہوا ہے اور ا ب ساری مشکلات حل ہونے جارہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
کسی کو اُن کا غم نہیں۔کوئی اُں کے لئے آنسو نہیں بہاتا۔وہ کٹ رہے ہیں، جل رہے ہیں۔وہ مر رہے ہیں۔
قلم اُٹھا، تلوار اُٹھا
کر ہمت چل یار اُٹھا
جل گیا ہے تیرا قبلہ
اب تو اپنے ہتھیار اُٹھا
کٹ گئے تیرے بازو تو کیا
فولاد بن اغیار اُٹھا
تیرا سینہ پھٹ نہ جائے کہیں
مومن بن تلوار اُٹھا
پھر سے پیدا کر روحِ قاسمی
پھر سے اپنا معیار اُٹھا
یہ "بے رحم نیند”  کا شکار لوگ ہیں ان کے ضمیر مر چکے ہیں۔یہ نہیں جاگنے والے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی درد بھری آواز میں اپنی اس خود کلامی کو جاری رکھتے ہوئے وہ شخص بھی اُسی "بے رحم نیند ”  کا شکار ہوجا تا ہے اور وہیں دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے سو جاتا ہے۔ ختم شد