انڈیا کا نیا بیلسٹک میزائل اگنی-5 کونسی ٹیکنالوجی سے لیس ہے اور چین کو اس سے کیا خطرہ ہے

انڈیا نے پیر کے روز دیسی ساختہ بین البراعظمی بیلسٹک میزائل اگنی-5 کا کامیاب تجربہ کیا ہے جو پورے چین اور نصف یورپ کو اپنے ہدف پر لے سکتا ہے۔

یہ جدید ترین ٹیکنالوجی ملٹیپل انڈیپینڈنٹلی ٹارگیٹیبل ری انٹری وہیکل (ایم آئی آر وی) سے لیس ہے جو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ایک میزائل مختلف مقامات پر متعدد وار ہیڈز کے ساتھ اپنے اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

انڈیا نے اس سے قبل ایک ہی ہدف کو نشانہ بنانے والا اگنی-5 میزائل اکتوبر سنہ 2021 میں لانچ کیا تھا اور یہ اس کا جدید ورژن ہے۔آل انڈیا ریڈیو کے مطابق اس پروجیکٹ کی سربراہی خاتون پراجیکٹ ڈائریکٹر نے کی جبکہ اس میں دیگر خواتین کا بھی اہم کردار ہے۔

وزارت دفاع کی پریس ریلیز کے مطابق اسے مشرقی ریاست اڑیسہ کے ساحل سے دور انڈیا کے سابق صدر اور معروف سائنسدان اے پی جے عبدالکلام کے نام پر معنون جزیرے سے لانچ کیا گیا۔

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر سائنسدانوں کو اس کامیاب تجربے پر مبارکباد دی ہے۔ اس کے بنانے والے ادارے ڈی آر ڈی او نے کہا کہ مختلف ٹیلی میٹری اور ریڈار سٹیشنوں نے دوبارہ داخل ہونے والی ملٹیپل وہیکل کا سراغ لگایا اور ان کی نگرانی کی اور ’مشن نے ڈیزائن کردہ پیرامیٹرز کو پورا کیا۔‘

اگنی-5 کے اس تجربے کو مشن دیویاسترا کا نام دیا گیا ہے اور اس کے ٹیسٹ کے ساتھ انڈیا ان منتخب ممالک کے گروہ میں شامل ہو گیا ہے جن کے پاس ایم آئی آر وی صلاحیت ہے۔

امریکہ، روس، برطانیہ، چین اور فرانس کے پاس یہ ٹیکنالوجی پہلے سے موجود ہے۔ چین کے پاس پانچ ہزار سے سات ہزار کلومیٹر کے فاصلے تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے والی صلاحیت کے میزائل ہیں۔

اگنی 5 کی خصوصیات کیا ہیں؟

سرکاری میڈیا آکاشوانی کے مطابق یہ میزائل نظام دیسی ایویونکس سسٹمز اور اتنہائی ٹھیک نشانہ لگانے کی صلاحیت والے سینسرز سے لیس ہے، جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ میزائل کے مختلف حصوں میں موجود ہتھیار مطلوبہ ہدف کو درست نشانہ بنائیں۔

واضح رہے کہ اس میزائل کے تین حصے ہیں اور یہ تینوں حصے مختلف ہتھیاروں سے لیس ہو کر متعدد مقامات پر ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ صلاحیت انڈیا کی بڑھتی ہوئی تکنیکی صلاحیتوں کی ترجمانی کرتی ہے۔

اگنی-5 انڈیا کا پہلا اور واحد بین البراعظمی بیلسٹک میزائل ہے جسے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) نے تیار کیا ہے۔ یہ انڈیا کے پاس موجود طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں میں سے ایک ہے۔

انڈین میڈیا نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ میزائل پانچ ہزار کلومیٹر تک اپنے ہدف کو ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یعنی اگر دیکھا جائے تو یہ پورے چین اور آدھے یورپ تک کے علاقے کا احاطہ کر سکتا ہے۔

اگنی-5 بیلسٹک میزائل ایک ساتھ کئی وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ میزائل ایک سے زیادہ آزادانہ طور پر ٹارگٹ ایبل ری اینٹری وہیکل (ایم آئی آر وی) سے لیس۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے بیک وقت متعدد اہداف کے لیے لانچ کیا جا سکتا ہے۔

یہ ڈیڑھ ٹن تک جوہری ہتھیار لے جا سکتا ہے۔ یہ آواز کی رفتار سے 24 گنا زیادہ تیزی سے سفر کر سکتا ہے یعنی 29 ہزار 401 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتا ہے۔ لانچنگ سسٹم میں کنسٹر ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس میزائل کو آسانی سے کہیں بھی لے جایا جا سکتا ہے۔

اس میزائل کو آسانی سے داغا جا سکتا ہے۔ اس لیے اسے ملک میں کہیں بھی تعینات کیا جا سکتا ہے۔

اگنی-5 ایک جدید ایم آئی آر وی میزائل ہے۔ روایتی میزائل صرف ایک وار ہیڈ لے جا سکتے ہیں، جب کہ ایم آئی آر وی بیک وقت متعدد وار ہیڈ لے جا سکتے ہیں۔ وار ہیڈ یعنی میزائل کا اگلا حصہ جس میں دھماکہ خیز مواد ہوتا ہے۔

اس خصوصیت کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے سے سینکڑوں کلومیٹر دور واقع کئی اہداف کو ایک ہی میزائل سے تباہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک ہی ہدف پر ایک ہی وقت میں متعدد وار ہیڈز بھی لانچ کیے جا سکتا ہے

جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ’ملک کو مشن دیویاسترا کے لیے اپنے ڈی آر ڈی او کے سائنسدانوں پر فخر ہے۔’

سکیورٹی رسک ایشیا کے ڈائریکٹر راہل بھوسلے نے خبر رساں ادارے پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک بہت اہم دن ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ہم نے ایک مضبوط اور سب سے زیادہ اسٹریٹجک ہتھیار اگنی-5 کا کامیاب تجربہ کیا ہے جو چین کے پورے علاقے کا احاطہ کر سکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ حملے کے سدباب کے طور پر ہم نے ایک اہم سنگ میل عبور کیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس میں ایم آئی آر وی ہے جیسا کہ وزیر اعظم نے کہا ہے اور یہ دشمن کے ہوائی اور میزائل سسٹم کو شکست دے سکتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ بہت اہم ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ یہ ’خود انحصار انڈیا‘ کا کارنامہ ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ اسے ڈی آر ڈی او نے خود سے تیار کیا ہے اور اس میں کسی اور کا کوئی دخل نہیں۔‘

انڈیا نے اگنی میزائل-1 کا 22 مئی سنہ 1989 کو پہلی بار تجربہ کیا تھا اور اس کی صلاحیت 700 کلومیٹر کے فاصلے تک مار کرنے کی تھی۔

اس کے بعد اس نے اگنی-2 کا تجربہ 11 اپریل 1999 کو کیا اور اس کی رینج دو ہزار کلومیٹر تک بڑھ گئی۔

اسی طرح 9 جولائی سنہ 2006 میں انڈیا نے اگنی-3 کا تجربہ کیا اور اس میزائل کے مار کرنے کی صلاحیت تین ہزار کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ گئی یعنی اس کی زد میں پورا پاکستان آ سکتا تھا۔

پھر انڈیا نے 10 دسمبر سنہ 2010 کو اگنی-4 کا تجربہ کیا جس کی صلاحیت چار ہزار کلومیٹر تک مار کرنے کی ہے۔

کیا یہ چین کے لیے تیار کیا گیا ہے؟

حالیہ برسوں میں بحر ہند میں چین کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ حال میں مالدیپ نے انڈیا کے بجائے چین کو اپنا حامی بنایا ہے جس سے علاقے میں چین اور انڈیا کے درمیان مسابقت نظر آتی ہے۔

خلیج بنگال میں چین کے بحری بیڑے دریافت کے نام پر گشت کر رہے ہیں لیکن انڈیا کا کہنا ہے یہ عسکری اہمیت کے حامل ہیں

ایسے میں دی ہندو اخبار سے بات کرتے ہوئے البانی یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کرسٹوفر کلیری نے کہا کہ انڈیا نے چین کے خلاف اپنی قابل اعتماد صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے معاملے میں جدوجہد کرتا رہا ہے۔ چین کے کئی اڈے انڈیا کی پہنچ سے باہر تھے۔

اگنی-5 اس مقصد کو حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے۔ ایم آئی آر وی کے ساتھ اگنی-5 پاکستان کی چھوٹی فوجی صلاحیت کے خلاف آپشن فراہم کرنے میں انڈیا کی مدد کر سکتا ہے۔

جبکہ اخبار ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب انڈیا نے اگنی 5 کی جانچ کے لیے خلیج بنگال کو نو فلائنگ زون قرار دیا تھا تو چین بھی اس پر نظر رکھے ہوئے تھا۔

اخبار سے بات کرتے ہوئے اسٹریٹجک معاملات کے ماہر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ڈوڈا نے کہا: ’ہم اکثر ڈی آر ڈی او پر تنقید کرتے ہیں۔ لیکن میزائل ٹیکنالوجی کے معاملے میں ڈی آر ڈی او نے حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ چین بھی اپنے جوہری وار ہیڈز کو جدید بنا رہا ہے۔ ایسے میں انڈیا پیچھے نہیں رہ سکتا۔‘

جنوبی ایشیا کی سفارت کاری پر نظر رکھنے والے ڈیرک جے گراسمین نے سوشل میڈیا پر لکھا: ’ایم آئی آر وی کے ساتھ اگنی-5 میزائل کے کامیاب تجربے کے لیے ہندوستان کو مبارکباد۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیوں؟ مجھے جو معلوم ہوا وہ یہ ہے کہ انڈیا ایم آئی آر وی نیوکلیئر کلب کا حصہ بننا چاہتا ہے اور انتخابات قریب ہیں۔