امریکہ کی پشت پناہی اور جدید اسلحے کے باوجود کیا اسرائیل حماس کو ختم کر پائے گا

اسرائیل حماس کی جنگ اپنے چھٹے مہینے میں داخل ہو چکی ہے اور اس کے ساتھ ہی غزہ کی پٹی کے بنیادی ڈھانچے کو بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد اکیسویں صدی میں تنازعات کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہو چکی ہے۔

اسرائیل نے 7 اکتوبر کو حماس کے آپریشن کے جواب میں جنگ کا آغاز کیا اور وہ اسے جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔

جنگ کے آغاز کے بعد سے بارہا دہرائے گئے ایک بیان میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے سات فروری کو کہا، ’ہم حماس کو ختم کرنے، یرغمالیوں کو رہا کرنے اور اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے اپنے راستے پر گامزن ہیں کہ اسرائیل کو غزہ سے مزید کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔‘

لیکن کیا اسرائیل واقعی حماس کو ختم کر سکتا ہے یا کیا اس نے اپنے آپ کے لیے ایک ایسا حدف مقرر کیا ہے جسے حاصل کرنا مشکل ہے؟

سعودی عرب نے رمضان المبارک میں مساجد میں بڑی پابندی لگا دی

اسرائیل حماس کو ختم کرنے کے اپنے ارادے کو چھپا کر نہیں رکھتا۔ لیکن ماضی کے تجربات یہ دکھاتے ہیں کہ ایسا کرنا مشکل ہو گا۔

ہیو لیپ کہتے ہیں حماس ’صرف ایک فوجی تنظیم نہیں ہے، اور نہ ہی یہ صرف ایک سیاسی تحریک ہے۔ یہ ایک نظریہ ہے اور اس نظریے کا خاتمہ مشکل ہے، خاص طور پر اسرائیلی ہتھیاروں کے زور سے۔‘

یہ رائے 2014 میں غزہ کی پٹی پر فوجی آپریشن میں حصہ لینے والے سابق اسرائیلی فوجی بینزی سینڈرز کے جائزے سے ملتی ہے۔ اس آپریشن کے بارے میں انھوں نے کہا تھا کہ اس سے ’حماس کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے‘۔ ان کے خیالات اس وقت کے اسرائیلی وزیر دفاع موشے یاعلون کے برعکس ہیں جنھوں نے کہا تھا کہ حماس کو نقصان پہنچا جو کہ ’گہرا اور شدید تھا۔‘

بینزی سینڈرز کو اس بات کا احساس تھا کہ جس علاقے میں وہ تعینات تھے وہاں بہت سے شہری مارے گئے تھے، وہ کہتے ہیں ’پھر میں اپنے آپ سے پوچھتا رہ گیا، اس جنگ سے کیا حاصل ہوا؟ کیا حماس کو واقعی نقصان ہوا؟ کیا (جنگ) نے اسے کمزور کیا؟ حماس کو وہ کرنے سے روکا جو اس نے کیا؟‘

امریکہ کا H1B ویزا کیا ہے اور امریکہ نے اس ویزا پالیسی میں کیا تبدیلیاں کی ہیں

سابق اسرائیلی فوجی نے مزید کہا ’اور جو کچھ میں نے اس کے بعد کے سالوں میں پایا اس کا جواب یہ تھا کہ نہیں، اس سے وہ حاصل نہیں ہوا۔ نا صرف یہ بلکہ حماس مضبوط ہو گئی۔‘

اس جنگ کے نتیجے میں 1,200 سے زیادہ اسرائیلی اور 28,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے۔ دنیا بھر میں جنگ بندی کے مطالبات میں اضافہ ہوا ہے، جب کہ مشرق وسطیٰ میں وسیع تر جنگ چھڑنے کے خدشے کی روشنی میں تنازعہ مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

اسی وقت اسرائیلی فوجی مہم کی وجہ سے تناؤ بڑھ رہا ہے اور امریکی سیکٹری خارجہ انتھونی بلنکن کے مطابق ایک مستقل حل تک پہنچنے کی ضرورت ہے ’جس میں فلسطینی ریاست کی طرف راستہ بھی شامل ہو۔ تاہم اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو کھلے عام امریکہ کے مخالف رہے۔

اسرائیل کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور نسل کشی کے الزامات کا سامنا ہے۔ ان الزامات کو وہ ’انتہائی مضحکہ خیز‘ سمجھتا ہے۔ اسرائیل اب تک کئی مہینوں کی تصادم کے بعد غزہ میں حماس کی تحریک کو دبانے میں ناکام رہا ہے باوجود اس کے کہ وہ عسکری صلاحیتوں میں حماس کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔

ایک اندازے کے مطابق حماس کے عسکری ونگ میں تیس ہزار جنگجو ہیں، اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے حماس کے ایک تہائی جنگجوؤں کو مار دیا ہے جبکہ 16 ہزار کو زخمی کر دیا ہے جو کہ حماس کی عسکری صلاحیتوں کے لیے ایک دھچکا ہو سکتا ہے۔

امریکہ کی سرپرستی اور جدید ہتھیاروں کے باوجود اسرائیلی فوج غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام ہوگئ

تاہم امریکی ایجنسیوں کے اندازوں کے مطابق زخمی ہونے والوں کی تعداد 11,700 سے کم ہے اور ان میں سے بہت سے میدان جنگ میں واپس آ سکتے ہیں۔ تاہم حماس کی جانب سے اس تعداد کی تصدیق نہیں کی گئی۔

جینز ڈیفنس ویکلی کے مشرق وسطیٰ کے ایڈیٹر جیریمی بینی نے حماس کو پہنچنے والے نقصان کی حد پر شک ظاہر کیا اور مزید کہا کہ تحریک ’آسانی سے نئے جنگجو بھرتی کر سکتی ہے‘ اور ’سرنگ کا نیٹ ورک ہماری توقع سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔‘

کیا حماس کی حمایت بڑھ رہی ہے؟

پچھلے سال کی آخری سہ ماہی میں کیے گئے ایک رائے عامہ کے سروے کے مطابق، جس میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی دونوں میں فلسطینیوں کو شامل کیا گیا تھا، اکتوبر کے واقعات کے بعد فلسطینیوں کو بھاری نقصان ملنے کے باوجود حماس کی حمایت بڑھ رہی ہے۔

سروے سے پتا چلتا ہے کہ حماس کی حمایت سال کے آخر میں 22 فیصد سے بڑھ کر 43 فیصد ہو گئی۔ اگرچہ یہ فلسطینیوں کی نصف سے بھی کم نمائندگی کرتا ہے لیکن یہ فتح تحریک کی حمایت سے زیادہ نمائندگی ہے جو مغربی کنارے کے علاقوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس علاقے میں بھی حماس کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔

اس کے علاوہ 72 فیصد شرکا نے سات اکتوبر کو ہونے والے حملے کے فیصلے میں حماس کی حمایت کرنے پر اتفاق کیا۔ سروے میں 63 فیصد لوگوں نے اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ مسلح کارروائیوں کو قرار دیا۔ اس سروے کے اکثریت شرکا کا تعلق مغربی کنارے سے تھا۔

سروے کے منتظم کے مطابق حماس کی حمایت عام طور پر جنگ کے دوران یا اس کے فوراً بعد بڑھ جاتی ہے۔

لیکن ایک اسرائیل مخالف ماہر تعلیم ڈاکٹر ابراہیم فریحات کے لیے فلسطینی ’ امید اور مستقبل کے بغیر زندگی گزارتے ہیں اور حماس نے انھیں تصادم اور انقلاب کا متبادل دیا، جو انھیں ایک مختلف نقطہ نظر پیش کرتا ہے،‘۔فرانس کا ہنر مند غیر ملکیوں کے لیے نیا ٹیلنٹ ویزا پروگرام شروع کرنے کا اعلان

انھوں نے مزید کہا کہ اس طرح حماس کو نا صرف فلسطین بلکہ عرب اور اسلامی دنیا میں بھی وسیع حمایت حاصل ہے۔لیکن ایسے بھی لوگ ہیں جو حماس کی حمایت نہیں کرتے۔

اس سال کے آغاز میں سینکڑوں فلسطینی کارکنوں نے غزہ کی پٹی پر حماس کی حکمرانی پر تنقید کرنے والے ایک آن لائن پروگرام میں شرکت کی۔

حماس کی حکمرانی کا آغاز اس وقت ہوا جب تحریک نے 2007 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اس پٹی پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا جہاں لوگ اسرائیلی محاصرے اور بے روزگاری کے درمیان انتہائی خراب حالات میں رہتے ہیں۔

جنگجوؤں کی ایک نئی نسل؟

حماس کی طرف سے اسرائیل کے خلاف شروع کی گئی مسلح تحریک کا مقصد اس کے مطابق اسرائیلی قبضے کو ختم کرنا اور ایک فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔ مغرب میں بہت سے لوگ حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں لیکن عرب دنیا کا ایک حصہ اسے ایک مزاحمتی تحریک کے طور پر دیکھتا ہے۔

جب کہ اسرائیل کا اصرار ہے کہ حماس کی دھمکیوں سے بچنے کے لیے ناکہ بندی ضروری ہے، بہت سے فلسطینیوں کا خیال ہے کہ "قبضہ غصے کے جذبات کو ہوا دیتا ہے،‘ اور مبصرین اسے ’مزاحمت کی طرف رجحان کو بحال کرنے کی ایک وجہ‘ سمجھتے ہیں۔

یہ وہ رائے ہے جس سے غزہ میں پرورش پانے والی ماہر نفسیات ایمان فراج اللہ متفق ہیں۔

ایمان کہتی ہیں ’ایک ماہر نفسیات کے طور پر میں کہتی ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ ان بچوں میں سے بہت سے بچے اپنے والدین کی موت کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو اس بات کا احساس ہو گا کیونکہ آپ ان کے قتل کیے گئے بھائیوں کو جانتے ہیں۔ ان دنوں غزہ میں جو ہو رہا ہے ہے، مجھے یقین نہیں کہ اسرائیل اس سے حماس کی حمایت کرنے والے جنگجوؤں کی تعداد میں اضافے میں کردار ادا نہیں کر رہا ہے۔‘

سعودی عرب کی وزارت حج و عمرہ نے چند ممالک کے لیے پیشگی ویزا کے بغیر عمرہ کرنے کی منظوری دے دی2