گولڈ لیف

"گولڈ لیف      "

(منیب احمد فہمؔ)

دوسرا اور آخری حصہ

ارے جناب! لگتا ہے آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، آپ مجھے کوئی اور سمجھ رہے ہیں، نوجوان اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہتا ہے۔میں تو ایک غریب اسٹوڈنٹ ہوں جو یہاں محض سیرو تفریح کے لئے آیا ہوں، مجھے کچھ خریدنا نہیں ہے۔

ارے واہ! برخواردار ہاتھ میں سیگریٹ ”   گولڈ لیف  "کا اور کہتے ہو کہ غریب اسٹوڈنٹ ہوں، دکاندار پاس پڑی میز پر بیٹھتے ہوئے کہتا ہے۔  ارے جناب! غریبی کا سیگریٹ کا بھلا کیا تعلق؟اپنی اپنی پسند کی بات ہے، نوجوان سیگریٹ کا کش لگاتے ہوئے دکاندار کے سامنے بیٹھ جاتا ہے۔

ارے میاں! کچھ علم بھی ہے مہنگائی کس قدر بڑھ گئی ہے اور یہ سیگریٹ جو آپ پی رے ہو کتنا مہنگا ہو گیا ہے اور آپ کہہ رہے ہو کہ غریب اسٹوڈنٹ ہوں۔۔۔۔دکاندار ایک طرف منہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔
نوجوان خاموش رہتا ہے اور کوئی جواب نہیں دیتا۔۔۔

بھئی! آج کل تو جو لوگ سیگریٹ پیتے ہیں میں اُن کو ہر گز غریب نہیں جانتا اور صاحب تو 30روپے کا ایک سیگریٹ پی رہے ہیں۔۔ارے! 30روپے میں دو روٹیاں مل جاتی ہیں جن سے ایک غریب مزدور اپنی ایک وقت کی بھوک بمشکل مٹا پا تا ہے۔آہ۔۔۔کبھی ایک وقت تھا کہ انہی 30روپوں سے 10لوگ بھر پیٹ کھا لیا کرتے تھے، دکاندار سر کی ٹوپی اُتارتا ہے اور پھر پہن لیتا ہے۔

بڑے بزرگوں سے سنا تو یہی ہے کہ اتنی قیمت میں 10سے12لوگ آرام سے کھا لیا کرتے تھے، نوجوان سیگریٹ کا آخری کش لگاتے ہوئے کہتا ہے۔
چلئے چھوڑیے ان سب باتوں کوآج آپ کو ایک ایسی منفرد اور خوبصورت چیز دکھاتا ہوں جو پہلی نظر میں ہی آپ کے دل پہ جا کے لگے گی۔

دکاندار اپنی مخصوص لاہوری انداز میں کہتا ہے۔ارے نہیں! مجھے کچھ خریدنا نہیں ہے میں نے بتایا تو۔ نوجوان اُٹھتے ہوئے کہتا ہے۔دکاندار جلدی سے نوجوان کو روکتا ہے اور آواز لگاتا ہے،  او!  رفیق پرسوں جو بالکل فریش مال آیا ہے اس میں سے جو نگینے علیحدہ کیے تھے وہ نکال اور لے آ۔

دیکھئے میں آپ کو بتا چکا ہوں مجھے کچھ خریدنا نہیں ہے اور نہ ہی میری حیثیت ہے مہنگی چیزیں خریدنے کی۔نوجوان تھوڑی بھاری آواز میں کہتا ہے۔آپ بس مجھے اجازت دے دیجئے۔

اسی اثناء میں کاریگر رفیق ایک بند بستہ لیے آتا ہے اور نوجوان کے سامنے بوتیک کا ایک دلفریب لہنگا سیٹ بچھا دیتا ہے۔ سنہری رنگ کے بوتیک سیٹ میں سفید موتیوں کی چمک واقع میں دل کو مولینے والی ہوتی ہے جو کہ نوجوان کی آنکھوں میں واقع ایک سنہری چمک لے آتی ہے۔

کیوں میاں! رہ گئے نا دنگ۔میں نا کہتا تھا میری دکان میں ایک سے بھر کر ایک نگینہ ہے جو آپ کو اس پوری مارکیٹ میں کہیں سے بھی نہیں ملے گا۔دکاندار اپنی تعریف کے پھول بچھاتا ہے۔۔۔۔۔

آپ کا سیٹ تو واقع نگینہ کہلانے کے لائق ہے۔نوجوان بوتیک سیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتا ہے۔تو کیا کہتے ہو کر دوں پیک؟ دکاندار جلدی سے سیٹ کو سمیٹتے ہوئے کہتا ہے۔

نہیں جناب!  ” ضروری نہیں ایک پل کے لئے آنکھوں میں چمک لے آنے والی چیز ہمیشہ کے لئے آ کی آنکھوں کی چمک بن جائے۔بعض اوقات آنکھ کی بینائی ہوتے ہوئے بھی آپ کو اندھے پن کا ڈھونگ کرنا پڑتا ہے کیونکہ آپ اس حقیقت سے واقف ہوتے ہیں کہ جس شے کی تمنایہ آنکھیں کر رہی ہیں وہ کبھی بھی آپ کی آنکھ کی رونق نہیں بن سکتی”

دکاندار نوجوان کے اس جواب سے بالکل ہمہ تن گوش رہ جاتا ہے اور کوئی جواب نہیں دیتا۔
اب اجازت دیجئے۔نوجوان دکان سے چلا جاتا ہے۔