گولڈ لیف

گولڈ لیف

گولڈ لیف

دسمبر کی ٹھٹھرتی شام جب سردی کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ سخت گرم لباس میں ملبوس لوگ بھی سرد ہوا کی وجہ سے کپکپا رہے ہیں توہی کچھ لوگ اس ٹھنڈ سے لطف اندوز بھیہورہے ہیں کہ ایک دراز قامت نوجوان اچھرہ مارکیٹ کے سامنے والے بس اسٹینڈ پر اترتا ہے اور تیزی سے مارکیٹ کی طرف چلنے لگتا ہے۔اپنی دونوں اطراف خوب چہل پہل دیکھ کر ایک ٹھنڈی آہ بھرتا ہے اور مارکیٹ کے ساتھ ساتھ رمکے رمکے چلنے لگتا ہے۔ ” ہمم نظارہ تو شاندار ہے جیسے سنا تھامگر اتوار کو بھی حیرت ہے؟ ” مارکیٹ کے ساتھ چلتے چلتے گویا وہ خود سے ہم کلام ہوتا ہے اور چلتے چلتے مارکیٹ کے آخری کونے تک پہنچتا ہے اور اپنے ” سلیو لیس جیکٹ” میں سے ” گولڈ لیف ” سیگریٹ کی ڈبی نکالتا ہے، ایک سگریٹ سلگاتا ہے اور واپس مارکیٹ کے پہلے کونے کی طرف چلنے لگتا ہے۔چلتے چلتے اس کی نظر مارکیٹ میں خریداری کررہی خوبصورت عورتوں اور کچھ ہم عمر لڑکیوں پر جاتی ہے۔ "کوئی شک نہیں لاہور میں حُسن تو ہے اور حُسن بھی بلا کا، مگر یہ حُسن ہم غریبوں کا مقدر کہاں؟یہ حُسن بھی دولت کا پجاری ہے دولت کے آگے جھکتا ہے،ازل سے دولت کا ہی رہا ہے اور آخرت تک دولت کا ہی رہے گا” نوجوان سیگریٹ کا کش لگاتے ہوئے کہتا ہے ا ور اپنی چہل قدمی جاری رکھتا ہے۔

چلتے چلتے وہ مارکیٹ کے اندر پہنچتا ہے اور بوتیک کی دکان کے سامنے کھڑا سیگریٹ کا کش لگاتے ہوئے دکان کے باہر اور اندر لٹکے بوتیک کے خوبصورت ملبوسات کو دیکھنے لگتا ہے۔نوجوان کو باہر کھڑا دیکھ دکان سے ایک آدمی فوری اُس کی طرف لپکتا ہے، "بہت دنوں بعد نظر آئے صاحب سب خیریت ” سفید داڑھی، سر پہ ٹوپی، توند باہر کی طرف لیے وہ آدمی نوجوان سے کہتا ہے۔نوجوان حیران ہے کہ نہ تو وہ اس شخص کو جانتا ہے اور نہ کبھی مارکیٹ میں اس سے پہلے وہ یہاں آیا تو اس تکلف کی وجہ؟ نوجوان بغیر کوئی جواب دیے وہاں سے جانے ہی لگتا ہے کہ وہ شخص اس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے، "ارے صاحب! اتنے دنوں بعد اس طرف آئے ہو آج تو خریداری کیے بغیر واپس نہیں جانے دوں گا! وہ نوجوان کو دکان اندر کھینچتے ہوئے کہتا ہے۔جاری ہے۔